افسانچہ 3: دھول

افسانچہ (3)

دھول

شہزاد بشیر

 

           ٹریفک کے شور اور دھول مٹی نے ہر شخص کا حلیہ بگاڑ رکھا تھا۔ایسے میں تپتی دوپہر میں بازار سے سودا خرید کر گھر جاتے ہوئے خواجہ صاحب کو راستے میں ان کے محلے دارشریف صاحب مل گئے۔ سلام دعا کر ہی رہے تھے کہ دور ایک ٹھیلے پر ایک دوسرے محلے دار کھڑے نظر آئے تو شریف صاحب نے خواجہ صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھاکہ” ان صاحب کو پہچانتے ہیں آپ ؟“

خواجہ صاحب نے دھوپ میں آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر دھول سے اٹے چشمے کے پیچھے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ”مجھے وہ آدمی کچھ ٹھیک نہیں دکھ رہا۔“

 بس اتنا سننا تھا کہ شریف صاحب نے اس محلے دار کا کچا چٹھا کھول ڈالا۔ دل بھر کر برائیاں کر ڈالیں۔ خواجہ صاحب انہیں ٹوکنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ پھر جب شریف صاحب کی شرافت نے کچھ دم لیا تو خواجہ صاحب نے ہاتھ سے سبزی کا تھیلا نیچے رکھا، میلی کچیلی قمیض کے دامن سے چشمہ اتار کر اسے صاف کیا اور پھر دوبارہ آنکھوں پر لگاتے ہوئے بولے۔

” اب مجھے وہ آدمی ٹھیک دکھ رہا ہے۔ پہلے ہی چشمہ صاف کرلینا چاہئے تھا۔“