کالم7 – کرسی گھوڑا بجلی اور چھینک

کرسی،گھوڑا،بجلی اور چھینک

کالم نگار؛ شہزاد بشیر 

 

خواہ مخواہ: عید مبارک جناب قبلہ ۔

بلاوجہ :آپ کو بھی عید مبارک ۔حضور ۔۔ بلکہ سب کو عید مبارک۔

خواہ مخواہ: ماشاءاللہ کہاں چل دیئے سج دھج کے ؟بجلی گرانے کو۔

بلاوجہ : ارے میاں ۔۔بجلی ہمارے پاس ہوتی تو گراتے کسی نشیمن پر۔

خواہ مخواہ: کیا مطلب قبلہ۔ بجلیاں تو دشمن گراتے ہیں نشیمن پر ۔آپ تو ماشاءاللہ یاروں کے یار ہیں۔

بلاوجہ : ارے وہی تو کہہ رہے ہیں نا۔

خواہ مخواہ: کیاکہہ رہے ہیں ۔ معاف کیجئے گا۔میں کچھ سمجھا نہیں۔

بلاوجہ : رکئے ۔ ہم سمجھاتے ہیں۔ آں چھی۔

خواہ مخواہ: ارے ۔۔ ارے قبلہ آپ کو تو زکام لگتا ہے۔ کوئی نسخہ لے لیجئے ۔

بلاوجہ :باﺅلے ہوئے کیا؟ اس سڑی گرمی میں زکام ہوگا؟

خواہ مخواہ: تت۔ توپھر چھینکے کیوں؟

بلاوجہ :ارے بھولے بادشاہ۔ اب مہنگائی کے دور میں یہ چھینک ہی تو ہے جو آدمی کی دسترس میں ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ آپ بھی کھل کے چھینکئے۔

خواہ مخواہ: مم۔۔ مگر قبلہ ۔۔ چھینک آئے گی تو چھینکیں گے نا۔ زبردستی کیسے چھینکیں؟

بلاوجہ : ہاں۔۔ بس یہی بات سمجھانی مقصود تھی جناب کو۔

خواہ مخواہ: کک۔۔ کیا مطلب کونسی بات؟

بلاوجہ : سنئے حضور ! آج کے دور میں جس کے گھر میں بجلی اور چھینک آرہی ہے سمجھئے جنت ہے وہ گھر۔

خواہ مخواہ: لاحول ولا۔۔ قبلہ چھینک اور بجلی کا آپس میں بھلا کیا تعلق؟

بلاوجہ : تعلق کیوں نہیں میاں؟ بجلی بنا آپ کی کیا حالت ہوتی ہے بھلا؟

خواہ مخواہ: حالت۔۔ ہاں ۔۔ حالت تو پتلی ہو جاتی ہے۔ کوئی کام نہیں ہوتا۔ گرمی بے دم کردیتی ہے۔ بچے بلکتے ہیں۔ نہ دن کو چین نہ رات کا سکون۔انسان کسی کام کا نہیں رہتا ۔ سارے معاملات ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ اور پھر جب گھنٹوں بعد آتی ہے تو سارا سسٹم چل پڑتا ہے۔

بلاوجہ : اماں ۔۔ اچھے خاصے سمجھدار آدمی ہیں آپ۔ تو چھینک سے بھی تو یہی ہوتا ہے۔ انسا ن کا سسٹم ری سیٹ ہو جاتا ہے۔ جانتے نہیں کیا؟

خواہ مخواہ: اوہ ۔۔ ہاں یہ تو ہے۔ ویسے نصیب دشمناں وہ بجلی اور نشیمن کاکیا قصہ ہے حضور؟

بلاوجہ : ارے ۔۔میاں لگتا ہے آپ کی بینائی کمزور ہوگئی ہے ۔ کہئے تو کچھ نسخہ جات لکھ دوں ؟

خواہ مخواہ: کیامطلب قبلہ۔ ہماری نظر تو اتنی تیز ہے کہ عید کا چاند ایک روز پہلے ہی دیکھ لیتے ہیں ۔

بلاوجہ : واہ ۔۔ کیا نظر ہے ۔ تو پھر آپ کو ہمارے حلیہ سے نہیں لگ رہا کہ گرمی کے مارے کیا برا حال ہے؟

خواہ مخواہ: اوہ ۔۔ ہاں لگ تو رہا ہے؟ قبلہ بہت شرمندگی کی بات ہے کہ آپ نے پرانا لباس زیب تن کیا ہے ۔ افسوس ہمیں آپ کے حالات کی خبر نہیں۔

بلاوجہ : ارے میاں۔۔یہ پرانا نہیں نیا جوڑا ہے عید کا۔

خواہ مخواہ: ہائیں ۔۔ عید کا جوڑا۔۔ مگر قبلہ معاف فرمائیے گا۔ حالت سے تو نہیں لگتا۔

بلاوجہ :بجلی نہیں ہے۔ عید کے کپڑے لگتا ہے کہ جیسے پانچ سال پرانے ہیں۔ پسینے اور گرمی سے حال برا ہے ۔ استری تک نہیں کرسکے۔ اب عید پر بھی بجلی نہ ہوتو کیا کرے کوئی؟مجھے تو لگتا ہے کہ بجلی والوں کا کوئی کنکشن ہے سورج کے ساتھ۔ یہ لیتے ہیں وہ دیتا ہے۔

خواہ مخواہ: کیالیتے ہیں اور کیا دیتا ہے ؟

بلاوجہ : ارے بھئی بجلی والے بجلی لے لیتے ہیں اور سورج میاں گرمی دے دیتے ہیں ۔ اب سمجھے کہ نہیں ؟آں چھی۔۔۔

خواہ مخواہ: ارے ارے قبلہ ۔۔ آپ کو تو گرمی کا زکام لگتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں ۔ سامنے کلینک سے دوا لے لیجئے۔

بلاوجہ : ارے میاں ۔۔۔آپ بھی کیا سادہ ہیں ؟

خواہ مخواہ: حضور وہ ”میر“تھے جو سادہ تھے۔

بلاوجہ : آپ بھی میر سے کم نہیں ۔ وہ سامنے والے کلینک ہی کی وجہ سے تو یہ حال ہے۔

خواہ مخواہ: کیا مطلب ؟ قبلہ۔

بلاوجہ : سناتو ہوگا ۔۔ میر بھی کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب ۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔

خواہ مخواہ: جی قبلہ۔۔ سنا ہے یہ شعر۔ مگر یہاں اس کی کیامنطق؟

بلاوجہ : حضور وہ کلینک والے ڈاکٹر صاحب اسی عطار ۔۔ مطلب بجلی محکمے کے کرتا دھرتا کے لونڈے ہیں۔ گرمی سے انسان بیمار ہوتا ہے ۔ سانس رکنے لگتی ہے۔ بچوں کو دانے نکل آتے ہیں۔ ساری رات بلکتے ہیں۔ پسینے سے پانی کی کمی ہوتی ہے جسم میں ۔ کسی کو لو لگ جاتی ہے۔ کوئی گرمی سے بے حال ہو جاتا ہے۔ اور اس کے بعد اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے جانا پڑتا ہے۔ اب سمجھے کہ نہیں۔

خواہ مخواہ: ارے قبلہ ۔۔ یہ تو برسوں سے ہورہا ہے۔ اب اس پر جی کو جلانا کیا؟

بلاوجہ : حضور والا۔۔اب تو بس جی کو جلا کر ہی روشنی ہوسکتی ہے۔ بجلی تو صرف اب بلوں میں آتی ہے۔ وہ جھٹکے دیتی ہے۔۔ وہ جھٹکے دیتی ہے۔ کہ بس کمزور دل حضرات تو نہ ہی دیکھیں تو اچھا ہے۔

خواہ مخواہ: صحیح کہا۔ مگر قبلہ یہ تو برسوں سے ایسے ہی ہوتا آرہا ہے۔

بلاوجہ : اس لئے ہوتا آرہا ہے نا۔۔ کہ ہم ہونے دے رہے ہیں۔

خواہ مخواہ: کک۔۔ کیا مطلب قبلہ ۔۔ بھلا ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ ہمارے اختیار میں کہاں ہے بجلی کا محکمہ۔

بلاوجہ : وہی تو۔۔ ۔ مسئلہ ہی یہی ہے ۔

خواہ مخواہ: کیا مطلب ؟

بلاوجہ : ارے میاں ۔۔ ۔ وہ آپ کو کرسی اور گھوڑے والی تصویر تو یاد ہوگی جو پچھلی بار دکھائی تھی آپ کو موبائل میں۔

خواہ مخواہ: وہ۔۔۔ ارے ہاں۔۔ یاد ہے۔۔ایک پلاسٹک کی کرسی کے ساتھ ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا ۔

بلاوجہ : ہاں ۔۔ وہی ۔۔ تو آپ سمجھے میرا مطلب ؟

خواہ مخواہ: وہ۔۔ معاف کیجئے گا ۔۔ میں نہیں سمجھا۔ وہ تو بس ایک تصویر تھی ۔ گھوڑا کرسی سے بندھا ہوا تھا۔

بلاوجہ : میاں ۔۔ یہی ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم تصویر یاد رکھتے ہیں اس کا کیپشن بھول جاتے ہیں۔

خواہ مخواہ: چلئے ۔۔ پھر آپ یاد دلا دیجئے نا۔

بلاوجہ : ہاں۔۔اس کا مطلب تھا کہ اس گھوڑے کو یہ سمجھا دیاگیا ہے کہ وہ بندھا ہوا ہے جب کہ وہ ایک ہلکی سی کرسی ہی تو ہے جو گھوڑے کی طاقت کے آگے رتی برابر بھی مزاحم نہیں ہو سکتی ۔ مگر گھوڑے کو اس بات کا ادراک نہیں۔

 
خواہ مخواہ: لیجئے۔ قبلہ یہ کونسی ایس بات ہے جو سمجھ میں نہ آئے۔ اور اس بات کا بھلا بجلی سے کیا تعلق؟

بلاوجہ : کمال کرتے ہیں حضور! مثال سے بھی نہیں سمجھے۔ تو پھر آپ سے بات کرنا فضول ہے۔ لو ہم تو چلے۔۔

خواہ مخواہ: ارے ۔۔ ارے قبلہ۔۔رکئے۔۔ بات تو مکمل کرتے جائیے۔

بلاوجہ : رہنے دیجئے۔۔۔ یہ بات آپ کی سمجھ میں آئی ہے نہ آئے گی۔

خواہ مخواہ: وہ ۔۔ وہ کیوں قبلہ۔ ۔۔ ؟

بلاوجہ : آپ پاکستان کی رعایا ہیں۔۔حضور۔۔وہ رعایا جو گھوڑے کی طرح سیاست کی کرسی سے بندھی ہے۔ کرسی بدلتی رہتی ہے۔گھوڑا وہی رہتا ہے۔ اس گھوڑے کو اپنی طاقت کا علم نہیں۔ اس لئے بندھا ہے۔ کرسی کے ساتھ بندھا گھوڑا اور سیاستدانوں کے ساتھ بندھے لوگ جنہیں اپنی ضروریات کا ادراک تو ہے مگر حل کرنا نہیں چاہتے۔ وہ صرف کرسی والے کو چاہتے ہیں۔ شخصیت پرستی میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ کرسی والوں کو وہ گھوڑے ہی نظر آتے ہیں۔ سوچئے اگر یہی سیاہ ست دان جتنی عوام کو اپنی کرسی کے لئے باہر نکالتے ہیں ، اتنی ہی عوام کو خود ان کے مسائل کے حل کیلئے باہر لاتے اوران کرپشن میں لتھڑے ہوئے محکموں کے خلاف آواز اٹھاتے تو کیا چھہتر سال گزرنے کے بعد بھی ملک کی یہ حالت ہوتی؟ عوام کو پارٹیوں کے نام پر ٹکڑوں میں بانٹ کر یہ سیاہ ست دان میوزک چیئر کھیل رہے ہیں اور عوام ان کی کرسی سے گھوڑے کی طرح بندھی کھڑی ہے۔

خواہ مخواہ: اوہ ۔۔ اوہ۔۔ اوہ۔ ۔یہ تو قبلہ درست کہا آپ نے۔

بلاوجہ : تو پھر کیجئے اپنا قبلہ درست ۔ پہنچانئے اپنی طاقت۔شخصیت کو چھوڑئے مسائل کے حل کو ووٹ دیجئے۔ پکڑئے ان سیاہ ست دانوں کے گریبان ۔ اور پوچھئے کہ کیا کیا انہوں نے اسمبلیوں میں جاکر۔اور لکھوائیے ان ساے اسٹامپ پیپر پر کہ اگر ہر ایک گلی محلے کا مسئلہ حل نہ کیا تو قابل گرفت ہونگے ۔ قانون کی بھی اور عوام کی بھی پکڑ میں ہونگے۔ دیکھئے پھر کیا ہوتا ہے۔کیسے حل ہوتے ہیں مسائل۔ مت نکلئے کسی کے بھی کہنے سے۔ بس نکلئے اپنے مسائل کے حل کیلئے۔ شخصیت کو بھول جائیے۔ اپنے مسائل کو یاد رکھئے۔ یہ ملک یوں ٹھیک ہوگا چٹکیوں میں ۔چٹکیوں میں۔

خواہ مخواہ: بہت خوب قبلہ۔۔یہ بات تو بہت سادہ سی ہے۔ واقعی شخصیت پرستی چھوڑ کر مسائل حل کرنے والے کو ووٹ دیں توکوئی مسئلہ نہ رہے۔ چلئے پھر اس دفعہ دیکھتے ہیں۔

بلاوجہ : یہ آخری موقع ہے۔ اپنے مسائل کے حل کا ۔ گھوڑا بھی ہے کرسی بھی ہے۔دیکھتے ہیں کون زیادہ طاقتور ہے۔ گھوڑا یا کرسی؟

 

تحریر: شہزاد بشیر