کالم5 – چمچے، چمچہ گیر اور ہنڈیا

چمچے،  چمچہ گیر اور ہنڈیا
.یہ مال ناقابل واپسی ہے

تحریر: شہزاد بشیر 

#5 کتاب دوست طنزو مزاح کالم 

 

چمچہ۔۔ ! بچپن سے یہ لفظ ہر انسان کے سننے میں آتا رہتا ہے۔ چمچے کا استعمال ہر گھر میں ہوتا ہے۔ چمچےبہت سی اقسام کے ہوتے ہیں ان کی اپنی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ کچھ کی لوگ خریدنے سے پہلے قیمت پوچھتے ہیں اور کچھ کی بعد میں۔ کچھ کی گارنٹی ہوتی ہے کچھ صرف کسٹمر کو ٹکائے جاتے ہیں۔کچھ  کی مارکیٹ ویلیو ہوتی ہے تو دکاندار سے بعد میں تبدیل بھی کروائے جا سکتے ہیں۔یوں چمچہ ایسی چیز ہے جسکے بہت سے فوائد ہیں اور زیادہ فائدے میں وہ لوگ ہوتے ہیں جوسونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اب یہ بات کہاوت ہے یا حقیقت اس پر کسی نے اب تک ریسرچ نہیں کی یا پھر کسی وجہ سے یہ راز اب تک دنیا کے سامنے نہیں لایا ۔ ہوگا کوئی نہ کوئی گورکھ دھندا ۔۔سانوں کی۔

 

اصل بات یہ ہے کہ  کچھ لوگ اس لفظ کے ساتھ لاحقے کی طرح لگ گئے تو یہ نیا لفظ بن گیا “چمچہ گیر”۔ دوسرے لفظوں میں اسے خوشامد کہا جاتا ہے۔ چمچہ گیری اکثر اوقات بڑی فیملی میں ، جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھر اسکول یا مدرسہ میں ، پھر کالج و یونیورسٹی میں اور پھر اس کے بعدعملی زندگی میں بھی یہ لفظ سماعت میں اور خیالات میں آتا ہی رہتا ہے۔ چمچہ گیری سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ کسی بڑی شخصیت کے سامنے اس کی خوشامد کسی ناجائز مقصد کیلئے کی جائے۔ کچھ لوگ کسی بڑی شخصیت کے صرف پیروں میں پڑے رہنے کیلئے بھی چمچہ گیری کا گیجٹ استعمال کرتے ہیں۔ گیجٹ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ بات زبانی کلامی سے آگے بڑھ کر جدید دور کے آلات استعمال کرنے تک پہنچ گئی ہے۔اور یہ بڑے لوگ کون ہوتے ہیں ؟ کچھ تو واقعی بڑے ہوتے ہیں ۔ اللہ کے فضل سے ان کے نیک کرموں کا صلہ ملتا ہے اور دنیا عزت سے نوازتی ہے ۔ وہ ”واقعی بڑے “ ہوتے ہیں۔ مگر کچھ کیلئے شاعر کہتا ہے 

 

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں ۔ بڑے لوگ ہر جگہ ملیں گے۔ مگر ان کی بڑک پن کا انداز بھی ان کے علاقے اور آب و ہوا کے حساب سے ہوتا ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ کسی محکمے کے چپراسی بھی صاحب کا نام لگا کر ایسے گھومتے ہیں جیسے یہ صاحب ہیں اور صآحب ان  کا چپراسی ہے۔جبکہ کچھ چمچوں کی عرضیاں لگی ہوتی ہیں یا کوئی جگاڑ لگانی ہوتی ہے یا پھر کوئی آسرا۔ اور بھی کئی مقاصد ہوتے ہونگے چمچوں کے۔ اللہ جانے۔  

یہ جو ”واقعی بڑے لوگ “ ہوتے ہیں یہ تو کہہ کر بھول جاتے ہیں مگر ۔۔یہ چمچہ گیر چوکتے نہیں کبھی بھی ۔کہیں جو کسی طرح انہیں موقع مل جائے تو بس۔۔ ان کا سیزن لگ جاتا ہے۔ اپنی خوشامد سے یہ بڑے بڑوں کو لڑوانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبار، میگزین ، سوشل میڈیا یا عام زندگی ، غرض جہاں کسی بڑی شخصیت کے کسی بیان سے کوئی ابہام پیدا ہوا نہیں اور یہ بوٹ پالش کا سامان لے کر پہنچے نہیں۔ اس چکر میں یہ ناعاقبت اندیش اپنی دنیا و آخر ت خراب کر ڈالتے ہیں۔ بڑے لوگ تو پھر ایک ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ تو بڑے ہوتےہیں ۔ مگر یہ چمچے” چخ چخ “کرتے کرتے اپنی چیخیں خود ہی سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اللہ ایسے موقع پرست چاپلوسوں سے ہر انسان کو محفوظ رکھے ۔آمین۔

 

افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ایسے ذہنی غلام جن کو اپنی ہمت محنت اور صلاحیت پر بھروسہ نہیں ہوتا یا پھر ان میں ایسی کوئی صلاحیت ہوتی ہی نہیں، وہ دم چھلے کی طرح کسی کی دم پکڑنے کی کوشش میں اپنی عزت کا جنازہ نکال لیتے ہیں۔ اور شہادت انہیں پھر بھی نصیب نہیں ہوتی بلکہ سیدھا ذلت کے گڑھے میں جا پڑتے ہیں۔ اس چکر میں وہ اپنے چاہنے والوں سے بھی گالیاں کھا تے نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ آپ کوہر جگہ نظر آئیں گے جنکی اپنی اچھی خاصی پہچان ہوتی ہے مگر وہ کسی نہ کسی بڑی شخصیت کی خوشامد میں اپنے منہ پر کالک ملوا لیتے ہیں جس کا اس بڑی شخصیت کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ شعرایسے لوگوں پر صادق آتا ہے کہ

میری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے 

 

چمچہ گیری کی بے تحاشہ مثالیں ہیں اور اب لوگ اس دور میں اتنے ذہین ہو گئے ہیں کہ وہ چمچوں کے ساتھ ہنڈیا اور اس میں پک رہی کھچڑی کو بھی بہت اچھی طرح دور سے سونگھ کر پتہ لگا لیتے ہیں کہ اس میں نمک کم ہے یا مرچ مسالہ تیز ہے۔کھانے لائق ہے یا سائیڈ پر کر کے فاسٹ فوڈ منگوانے لائق۔

 

چمچہ گیر ی کا فن بہرحال بہت مشکل سے آتا ہے ۔ جہاں تک میراذاتی خیال ہے، اس کی باقاعدہ عادت انسان کو بچپن سے پڑنی شروع ہو جاتی ہوگی ۔مگر بعض اوقات یہ فن جوانی میں اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ کیونکہ لائن بنانی ہوتی ہے۔ بعض لوگ روز گار کی خاطر چمچہ گیری کرتے ہیں اور بعض محض شغل میں بھی ۔ بعض ایسے بیوقوف بھی ہوتے ہیں جن کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ جس ہنڈیا کے لئے چمچے بنے ہیں اس میں پک کیا رہا ہے؟

 

پکنے سے یاد آیا کہ ظاہر ہے ہنڈیا چولہے پر ہوگی اور نیچے آگ جل رہی ہوتی ہے تو ہنڈیا گرم ہی ہوگی ۔اسی حساب سے چمچہ بھی گرم ہوجاتا ہے۔ بلکہ ہلکی کوالٹی کے چمچے ہنڈیا سے بھی زیادہ گرم ہو جاتے ہیں۔ایسے چمچے کو ہاتھ لگانے سے ہاتھ جل سکتا ہے۔کیونکہ جو سستے چمچے ہوتے ہیں ان پر انسولیشن نہیں ہوتی ہے۔ وہ صرف مہنگے چمچوں پر ہوتی ہے ۔ اس سے ہمیں چمچوں کی اوقات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ چمچہ ہنڈیا میں مستقل نہیں رہتا ہے ۔ اسے ”کام نکل جانے کے بعد“ ہنڈیا سے نکال دیا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو زبان سے چاٹ کر اس پر جو کچھ لگا ہوتا ہے وہ بھی صاف کر دیا جاتا ہے اورہمیشہ اسے ” اچھی طرح دھوکر“ الماری میں بند کر دیا جاتا ہے جو اس چمچے کی اصل جگہ ہوتی ہے۔ کیونکہ چمچے تو بوقت ضرورت ہی کام آتے ہیں نا ۔

کچھ جہاندیدہ لوگ چمچے کو ”اچھی طرح دھوکر“ اسے کٹلری سیٹ میں ”الٹا لٹکادیتے ہیں“۔

اکثر لٹکا کر بھول جاتے ہیں۔ ضرورت جو نہیں ہوتی ان چمچوں کی۔

آپ نے اکثر ڈسپوزیبل چمچے بھی دیکھے ہونگے۔ ہاں۔۔ وہی جو عام طور پر تفریحی مقامات پر یا بازار میں فوری ضرورت کیلئے ملتے ہیں۔ ہاں ہاں وہی ۔۔ وہی جن کو استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔بھئی وہ تو وقتی چمچے ہوتے ہیں ۔ بس جب تک استعمال نہیں ہوتے تب تک نئے پلاسٹک یا شوکیس میں رکھے جاتے ہیں ۔ جونہی استعمال ہوئے ان کا مقدر کوڑے دان جسے انگریزی میں ڈسٹ بِن کہتے ہیں۔بہت افسوس ہوتا ہے مگر سچائی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ بقول پروین شاکر

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

 

واضح رہے کہ یہ تحریر کسی چمچے کی دل آزاری کے لئے نہیں بلکہ اقسام اور اس کے استعمال کرنے کے بارے میں معلومات ہیں۔ چمچہ گیری میں ید طولیٰ رکھنے والے افراد کو دور سے پہچاننے کیلئے اب دنیا کے سائنسدان بھی سنجیدگی سے ایک ایسا گیجٹ تیار کرنے پر غور کر رہے ہیں جو کرونا کی طرح چمچہ گیر کو بھی دور سے پہچان لے ۔ کرونا سے بچاﺅ کیلئے تو انجکشن ایجاد کر لیا گیا تھا مگر اس مرض سے بچاﺅ کیلئے اب تک سائنسدان کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کر سکے ہیں اسلئے انہوں نے کہا ہے کہ جب تک وہ کامیاب نہ ہو جائیں تب تک بزرگوں اور سیانوں کی کہی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ انسان اپنی اوقات ہی میں رہے تو بہت اچھا ہے۔ دوسروں کے تلوے چاٹ کر چند سکے یا تعریفی کلمات کیلئے اپنی ”رہی سہی عزت“ داﺅ پر لگانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی ہے ۔ سیانے تو سیانے ہیں ۔ مان لو ان کی بات۔

پنجابی میں ایک اور ٹیگ لائن بھی زبان زد عام ہے ۔

”یا شیخ ۔۔ اپڑیں اپڑیں ویخ“ ۔

نہیں سمجھ آیا تو کوئی نہ کوئی معزز پنجابی بھائی اس کا اردو ترجمہ کر سکتا ہے۔

اور ۔۔ یار ۔۔یہ چمچہ گیری کوئی آج کا قصہ یا مسئلہ نہیں ہے۔ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد جناب” شیخ ابراہیم ذوق“ فرماتے ہیں 

رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

مرض یہ بہرحال ایسا لاعلاج بھی نہیں کہ مریض صحت یاب نہ ہوسکے ۔ چمچہ تو بہرحال چمچہ ہے۔ میں نے تو چمچے سے بچوں کو کھیلتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ کوئی اس کے سرکوگھما رہا تھا کوئی اسکو سیدھاٹیڑھا کر رہا تھا۔ ایک انگلش فلم میں خیال کی طاقت سے چمچے کو ٹیڑھا اور سیدھا کرتا دکھا یا گیا تو سمجھ آئی کہ چمچہ بھی کسی ایسے انسان کے ہاتھ آجائے جو اسے اشارے پر جیسا چاہے ویسا کردے تو ایسی صورت میں کمال تو پھر اس کا ہوا نا۔۔ چمچہ تو فاعل کے آگے صرف مفعول بن کر رہ جاتا ہے اور مفعول پر ”کام کیا جاتا ہے“۔ اسی طرح استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

اب میں یہ کہہ کر آپ کی معلومات میں تو اضافہ نہیں کر سکتا کہ چمچے ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ تو آپ بھی جانتے ہونگے بلکہ مجھ سے بہتر ہی جانتے ہونگے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو سرکاری دفاتر میں کام کرتے ہیں ان کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور واقعہ یاد آیا ۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ بھی کیا آدمی ہے۔ ہر جگہ اس نے ٹانگ اڑائی ہے کبھی نہ کبھی۔

بہر حال قصہ یہ ہے کہ 2009 میں میرا کمپیوٹر مینٹیننس کے حوالے سے بزنس تھا تو گارڈن کی حدود میں رہائش پذیر ایک دوست کے بھائی سے ملاقات ہوئی جو پولیس میں تھے اور ساتھ ہی وکالت بھی کرتے تھے۔ ان کے دفتر میں ٹریفک پولیس کے ایک ڈی ایس پی صاحب سے بھی ملاقات ہونے لگی ۔ بہت زندہ دل انسان تھے ۔میں نے ٹریفک پولیس میں ایسا بذلہ سنج انسان نہیں دیکھا۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ بعد انہیں سرِ عام قتل کر دیا گیا تھا۔ جس پر بہت دل اداس رہا کہ اچھے لوگ برے لوگوں کی کتنی آسانی سے زد میں آجاتے ہیں۔

بہر حال وکیل صاحبان کے اور ان کے کمپیوٹر کے معاملات بھی میں دیکھا کرتا تھا۔ پھر ایک روز انہوں نے مجھے سٹی کورٹ میں ایک جج صاحب کے ارجنٹ کام سے مجھے بلوایا۔  ان کے پرنٹر میں کچھ مسئلہ تھا اور کسی کی فوری ضمانت کروانی تھی۔ میں نے وہ کام فوراََ کر دیا اور بہت جائز پیسوں میں کیا۔

جج صاحب حیران ہوئے۔ مجھ سے تفصیل پوچھی تو ایمانداری سے حساب کتاب بتا دیا۔ انہوں نے فوراََ اپنے کمپیوٹر آپریٹر کو بلایا اور جب اس سے اسی کام کے اخراجات پوچھے تو وہ گڑبڑا گیا۔ جج صاحب نے اس وقت تو اسے کچھ نہ کہا۔ بعد میں آپریٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ کو جج صاحب کو خرچ کی تفصیل نہیں بتانی چاہئے تھی آپ بھی پیسے بناتے۔میں آپ کو بھی چائے پانی دے دیتا ۔ اس ناچیز نے عرض کی ۔

بھائی میں آپ کی چمچہ گیری نہیں کر سکتا ۔ آپ کی نوکری ہے اور میرا کاروبار۔ میں مالک ہوں آپ نوکر ہیں ۔ مالک ہوکر نوکر کی چمچہ گیری کروں اور وہ بھی چند پیسوں کیلئے تومجھ سے بڑا اس دنیا میں کوئی بیوقوف شاید اور نہ ہوگا۔ 

وہ بہت تلملائے۔ ڈرے بھی ۔ مجھے اپنے گھر دعوت پر بلوایا۔ مگر میں نے جج صاحب کو یہ بات نہیں بتائی تو وہ صاحب بھی ٹھنڈے ہوگئے۔

اب جج صاحب نے بتایا کہ سرکاری طریقے سے کام کروائیں تو بہت دیر لگتی ہے ۔ یعنی کمپیوٹر ، پرنٹر یا کوئی اور چیز خراب ہو تو پھر اس کا پورا ایک پروسیسس ہوتا ہے پھر وہ چیز ٹھیک ہوتی ہے اور کئی کیس اسی وجہ سے لٹکے رہتے ہیں ۔ اسلئے میں چاہتا ہوں کہ اپنے ذاتی خرچ سے کام کروالیا کروں اور پیسے بھی آپ کو اپنی جیب سے اداکردوں تاکہ کیسز کے سلسلے میں لوگ خوار نہ ہوں۔ تو آپ آجایا کریں گے؟“میں نے ان کی بات مان لی ۔

سٹی کورٹ میں پھر میرا ان جج صاحب کے ساتھ کافی عرصہ کونٹریکٹ رہا۔ ان کی رہائش قریب ہی تھی تو میں اکثر ان کا کام نپٹادیتا تو مجھے چائے کی آفر کرتے جو میں ہمیشہ اپنی عزت افزائی سمجھ کر قبول کرتا ۔ ان کو ان کے گھر ڈراپ کرتا تو اکثر ان کے بچےمجھ سے کمپیوٹر کے بارے میں معصومانہ سوالات پوچھتے۔

میں اکثر جب سٹی کورٹ جاتا تو عدالت چل رہی ہوتی تھی۔ اب مجھے پٹے والا ،پیشکار،  اسٹینو اور دیگر لوگ جاننے لگے تھے اسلئے کوئی روکتا نہیں تھا۔ میں کمرہ عدالت میں پیچھے بیٹھ کر کاروائی دیکھا کرتا تھا۔ جواب مجھے اپنی جاسوسی سیریز ”ڈی ایس پی طاہر سیریز “میں کام آرہی ہیں۔ اس کی ایک جھلک آپ کو نئے آنے والے ناول ”لاوارث جرم “ میں بھی نظر آئے گی۔

جج صاحب بھی چمچہ گیروں سے بہت پریشان تھے۔ ایک بار ان کے چیمبر میں موجود تھا تو ایک کیس پیش ہوا۔ دو پولیس والے ایک جیب کترے کو لے کر ان کے چیمبر میں آئے۔ میں نے اٹھ کر جانا چاہا تو جج صاحب نے روک لیا۔ کہنے لگے ۔
شہزاد ۔ذرا بیٹھو یہ کیس دلچسپ لگے گا تمہیں۔میں حیران ہوا۔ اصل میں اس جیب کترے کا نام بھی شہزاد تھا۔
جج صاحب نے اس سے کہا: تم نے یہ راستہ کیوں اپنایا؟ دیکھو یہ شہزاد صاحب بھی تمہارے ہم نام ہیں اور یہ بھی تمہاری ہی عمر کے ہیں مگر عزت کا راستہ اور حلال رزق کما کر کھاتے ہیں ۔
ان کی بات کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ڈھٹائی سے بولا : سر۔۔ میں نے کچھ کیا ہی نہیں ۔ آپ ان سے پوچھ لیں۔ “ اس نے ساتھ کھڑے پولیس والے کی طرف اشارہ کیا جو ظاہر ہے مک مکا کرکے ہی اسے لایا تھا۔ اس نے فوراََ کہا۔ جی سر۔۔ یہ لڑکا تو بے قصور ہے۔
جج صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا۔” دیکھا تم نے ۔ پولیس کیسے مدد کرتی ہے ؟“ (آگے کا جملہ جو انہوں نے نہیں کہا مگر یقینا ان کا مقصد تھا کہ ”دیکھا تم نے پولیس کیسے مدد کرتی ہے ۔ مجرموں کی“۔
کہنے لگے : ”یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ اس نے جرم کیا ہے ۔ یہاں انصاف کی کرسی پر ایسے نہیں بیٹھے۔ “

وہاں کا ماحول کوئی خوشگوار اثر نہیں چھوڑتاتھا۔ میں نے جج صاحب سے کہا کہ آپ کا کوئی بھی کام ہو،میں تین بجے کے بعد آﺅں گا۔ عدالت میں روتے بلکتے ، زنجیروں میں بندھے ، ہتھکڑیاں پہنے، فٹ پاتھوں پر بچوں کے ساتھ ملتے ، حوالات میں آنسو بہاتے لوگ دیکھ کر دل ہول جاتا ہے ۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر عدالت کا اندرونی ماحول لوگ دیکھ لیں تو اچھے اچھے طرم خان کسی بھی چھوٹے بڑے جرم سے کان پکڑ لیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہاں کیا حالات ہوتے ہیں۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے۔

تو بہر حال بات چمچہ گیری کی ہورہی تھی اور عدالت تک پہنچ گئی۔ ویسے کئی بار ایسا ہی ہوتا ہے کہ چمچہ گیر اسی جگہ پہنچ جاتے ہیں ۔ وہاں ان سے بھی بڑے بڑے چمچے ٹھنڈے ہو کر پڑے ہوتے ہیں کیونکہ اب ان کو گرم ہنڈیا تو ملتی ہی نہیں ۔ ایک ہنڈیاسلامت ۔ چمچے بہت مل جاتےہیں۔ بہت سے چمچے وہاں کفگیروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ پھر ان کی چمچہ گیری کرنی پڑتی ہے۔ تو یوں یہ عمل جاری رہتا ہے۔ کچھ چمچے چمک جاتے ہیں اور کچھ پر گرد کائی مٹی اور کالک لگ جاتی ہے۔ وہ چمچے بعد میں کاٹھ کباڑ والوں کو بیچ دیئے جاتے ہیں ۔ جو پھر انکو ایسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں جو مشینوں کے ذریعے انہیں کسی اور شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔ اور وہ چمچے پھر سے مارکیٹ میں آجاتے ہیں مگر اس دفعہ ان کی ہئیت ہی تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ کسی اور کام کے لئے استعمال ہونے لگتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ چمچہ گیروں کی بعض اقسام لچکدار ہوتی ہیں۔وہ سمجھ جاتے ہیں کہ کس ہنڈیا کا ٹمپریچر کتنا ہے اور چولہے سے اترنے کے بعد وہ کتنی دیر میں ٹھنڈی ہوگی۔ ہنڈیا کی بات کریں تو ہنڈیا کا بھی کم و بیش وہی روٹین ورک ہے۔ اس میں بھی صرف پکنے والی چیز کی تعریف ہوتی ہے کوئی ہنڈیا کی تعریف نہیں کرتا۔ کھانے والے کھا کر انگلیاں چاٹتے ہیں مگر اس میں پکے کھانے کی تعریف کر کے نکل جاتے ہیں۔

ایسے میں ہنڈیا اور چمچے اپنے اپنے تئیں ایک دوسرے کو صفائیاں دینے لگتے ہیں۔ مگر وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ پھر اندر سے صرف یہی جواب آتا ہے کہ 

خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے

ہنڈیا کی تعریف اگر کوئی کرتا ہے تو صرف اسے بیچنے والے سیلز مین یا کمپنی ۔ ہنڈیا اور چمچے ایک بار بک جائیں تو پھر کمپنی اور سیلز مین اس کی گارنٹی نہیں لیتے۔ آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ان کی دکان پر صاف صاف لکھا ہوتا ہے ۔ ”یہ مال ناقابل واپسی ہے“۔

شہزاد بشیر