کالم3 – اصل کتاب دوست کون؟
 #3 کتاب دوست کالم 
اصل کتاب دوست کون ؟
————————————————————————
مصنف و پبلشرز اور مفت کے من چاہے تبصرے ! ذرا سوچئے تو صحیح
————————————————————————
از: شہزاد بشیر 
جیسا کہ کتابوں کو مفت بانٹنے اور تبصرے لکھوانے کے حوالے سے پہلے بھی عرض کر چکاہوں کہ میں اس حوالے سے اپنے اصول پر قائم ہوں کہ مفت ناول بانٹ کر تبصرے لکھوانا دراصل کتاب خرید کر پڑھنے والوں کو ایک طرح سے دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ گزشتہ دس سال سے میں فری لانسنگ کے آن لائن بزنس سے وابستہ ہوں جہاں ہمیں غیر ممالک کے کلائنٹس صرف اس وجہ سے کام بلا جھجک دیتے ہیں کہ ہمارا گزشتہ دس سالہ سروس ریکارڈ بہترین ہے اور100فیصد تسلی بخش ریویوز (جن میں ایک بھی جعلی یا پیسے دے کر لکھوایا ہوا نہیں ہے) کی بنیاد پر غیر ملکی کلائنٹس بھروسہ کرتے ہیں
 
تو بالکل وہی اصول میں یہاں بھی نافذ کئے ہوئے ہوں کہ سوائے چند ایک قریبی لوگوں کو اعزازی طور پر ناول بھیجنے کے، میں کسی کو بھی ناول مفت بھیج کر تبصرے نہیں لکھواتا۔ الحمدللہ جتنے بھی تبصرے ناولوں کے بارے میں آتے ہیں وہ خرید کر پڑھنے والوں کے ہوتے ہیں اور بالکل آزاد تبصرے ہوتے ہیں ۔ کسی ایک کو بھی مثبت یا من چاہا تبصرہ کرنے کی درخواست نہیں کی جاتی اور نہ تنقیدی تبصروں کو غلط انداز میں لیا جاتا ہے بلکہ جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر قارئین کے سامنے پیش کر دیا جاتاہے۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میری تحریروں میں جان ہوگی تو قارئین خود مجھے پڑھیں گے اور میرے ہر ناول کے ساتھ ساتھ قارئین کی تعداد بڑھے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر تحریر بے معنی ہوگی تو قارئین ایک ناول پڑھنے کے بعد دوسرے کی طلب کبھی نہیں کریں گے۔
 
الحمدللہ میرے ناولوں کے صرف نام کا اعلان ہوتے ہی قارئین پری آرڈر کیلئے تیار ہو جاتے ہیں اور کچھ تو قارئین تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان ناولوں کے لئے بھی ایڈوانس پیسے بھیج رکھے ہیں جو ابھی شائع بھی نہیں ہوئے ۔ ایسے قاری جینوئن کتاب دوست اور کسی بھی مصنف کیلئے کسی سرمائے سے کم نہیں ہوتے۔ اور یہ بات تو ہم سب ہی بچپن سے دیکھتے اور تجربہ کرتے آرہے ہیں کہ کس طرح ہم سب دیوانوں کی طرح اپنے پسندیدہ مصنفین کے ناولوں کا انتظار کیا کرتے تھے۔ تو جناب میں یہی چاہتا ہوں کہ مصنف کے طور پر اپنے پڑھنے والوں کیلئے کسی بھی طرح بھی ایسا تجزیہ یا تبصرہ نہ شائع کروں جس سے قارئین کو دھوکا ہو۔ اور ان کے پیسے بے مقصدضائع ہوں۔
————————————————————————
کتب رسائل یا ناول مفت دینا گویا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے؟
————————————————————————
یاد رکھئے کہ یہ بات میں کسی کی بھی دل آزاری کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور کچھ تجربات میں نے جان بوجھ کر بھی کئے ہیں جنکے حیران کن نتائج ملے ہیں جن کی بنیا د پر یہ پوسٹ کی ہے۔ میں حیران ہوں کہ مصنفین مفت کتب ، رسائل اور ناول ایسے لوگوں کو بھیج دیتے ہیں جو صرف چند سطریں یا ایک آدھ پوسٹ کا تبصرہ لکھنے کیلئے 500پانچ پانچ سو اور 1000ہزار ہزارروپے کی کتابیں مانگتے ہیں جبکہ اتنے پیسوں میں تو اگر فیس بک یا گوگل پر اشتہار چلا دیا جائے تو مصنف یا پبلشر کی کئی کاپیاں فروخت ہو سکتی ہیں اور وہ سب جینوئین خریدار اور قاری ہوتے ہیں جو اشتہار دیکھ کر کتب خریدتے ہیں. وہ ہی اصل کتاب دوست قاری ہوتے ہیں۔
 
تو بجائے ہزار روپے کی کتب ایک شخص کو دیکر ایک من چاہا تبصرہ لکھوانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ اسی مالیت کااشتہار چلا دیں؟ جس سے کہ آپ کو خرید کر پڑھنے والے ہزاروں اصل قارئین تک رسائی ممکن ہو اور وہ آپ کے مستقل قاری اور مداح بن جائیں۔ میں نے یہ تجربہ کیا ہے اور میرے 97 فیصد قاری وہی ہیں جو خرید کر پڑھنا پسند کرتے ہیں ۔ آج کے دور میں اگر کتب کو زوال سے بچانا ہے تو سب سے پہلے مصنف اس بات کو سمجھے۔
 
مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور صرف پچھلے چند دنوں میں کاغذ کا ریٹ پبلشرز کے ہوش اڑا چکا ہے۔ میرا نیا ناول ”شعاعوں کا ہنگامہ“ 42فیصد اضافی قیمت کے ساتھ پرنٹ ہوا۔ مصنفین کو چاہئے کہ کتب مفت بانٹنے کے بجائے سوشل میڈیا پر اشتہار چلائے جس کے عوض اس مصنف اور کتاب یا ناول کی خبر ہزاروں لوگوں کو ہو جاتی ہے اور انہی میں کتب خرید کر پڑھنے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ میرا آزمودہ مشورہ ہے۔ آپ جتنے لوگوں کو مفت کتب بھیجیں گے اس میں کتب کے ساتھ ظاہر ہے کہ کوریئر کا خرچ بھی آپ ہی کا ہوگا۔ یعنی کتب بمعہ کوریئر کا خرچ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مفت مانگنے والے صرف اپنی الماریاں کتب سے بھر لیتے ہیں اکثر تو پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ نقصان سراسر مصنف کا ہوتا ہے یا پھر پبلشر کا۔ ظاہر ہے سرمایہ واپس نہیں آتا تو اگلا ناول یا کتاب کون چھاپے گا۔ ویسے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کے زوال کی صرف یہ وجہ تو نہیں ہے۔ بالکل ۔۔ مگر یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
 
اب جو مفت کتب لے کر تبصرے لکھتے ہیں ذرا ان کی بات ہو جائے تو ان کا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے ان کی فرینڈ لسٹ میں جو جو ہوگا پہلے تو وہ یہ جانتا ہوگا کہ یہ مفت کا تبصرہ ہے لہٰذہ تنقیدی پہلو تو اس میں ہوگا نہیں۔ دوسرے یہ اس لسٹ میں موجود یوزرز اس شخصیت کی خاطر ہر پوسٹ کو لائک اور کمنٹ کر دیتے ہیں جس کا کوئی بھی فائدہ مصنف یا پبلشر کو نہیں ہوتا کیونکہ اس حلقے میں چند ایک کے سوا خریدار نہیں ہوتے ہیں اور تبصرے کو بھی لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ اس کے برعکس اشتہار سوشل میڈیا پر یا انٹرنیٹ پر دیا جائے تو اسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے کیونکہ پڑھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر انویسٹمنٹ ہوئی ہے۔
 
اب آجائیے کہ اگر مصنف کو سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر اشتہارات کا تجربہ یا معلومات نہیں ہے کہ کتنے پیسوں میں کیسے اور کہاں اشتہارات چلوائے جائیں تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ۔ آپ یو ٹیوب یا سوشل میڈیا پر چند منٹوں میں یہ سیکھ سکتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں ویڈیوز اور ٹیوٹوریلز موجود ہیں۔ سرچ کیجئے اور سیکھ کر اپنے علم اور مہارت میں بھی اضافہ کیجئے۔ میری اس پوسٹ کو کسی فرد یا گروہ کے خلاف مت سمجھئے یہ صرف مصنفین اور پبلشرز کے ایک مسئلے پر تحریر لکھی ہے۔
————————————————————————
مفت کتب مانگنے والے تبصرہ نگاروں سے ایک اہم سوال
————————————————————————

اب میں ایسے تبصرہ نگاروں سے دست بستہ عرض کروں گا کہ برائے مہربانی مفت کتابیں مانگنے اور مرضی کے تبصرے لکھنے کیلئے اتنی مہنگی کتب لینے سے پہلے یہ تو سوچئے کہ آپ کے تبصروں سے اس مصنف یا پبلشر کو کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ آپ کو تو کتاب مل جاتی ہے مگر جس غریب نے کتاب بمعہ ڈیلیوری چارجز کے آپ کو بھیجی ہے کیا آپ اسے کم سے کم دس خریدار دے سکتے ہیں یا کم از کم اتنے جتنے کی وہ کتاب ہے؟ فرض کیا 500 کی کتاب ہے تو کیا اپ یہ خود پر لازم کر سکتے ہیں کہ اس کے عوض کم سے کم دس یا پانچ کتابیں آپ کے حوالے سے فروخت ہو سکیں ؟ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو برائے مہربانی مفت کتب مانگ کر اپنی شیلف بھرنا بند کیجئے یہ سرا سر ناجائز ہے۔ اگر آپ کے حلقہ احباب میں جینوئن کتاب دوست جو کتب خرید کر پڑھنے کیلئے آپ کے تبصروں پر انحصار کرتے ہوں وہ نہیں ہیں تو پھر آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ صرف چند سطریں یا ایک دو پوسٹس لکھنے کیلئے مہنگی کتب منگوائی جائیں۔ بعض اوقات نئے مصنفین مروت میں اور بعض دفعہ اس غلط فہمی میں کتب بھیج دیتے ہیں کہ اس سے ان کی کتب کی فروخت میں اضافہ ہوگا جو کہ بعد میں ایک پچھتاوا ثابت ہوتا ہے۔

 
تو جناب میں نےجو کہا سوچ سمجھ کر کہا۔ اس تحریر کو کھلے دل سے سمجھ کر پڑھئے گا۔ سمجھ میں آجائے تو سمجھوں گا کہ ابھی کتاب دوست لوگ باقی ہیں۔