تبصرہ : پہچان

  پہچان 

مصنفہ : ثناور اقبال
  تبصرہ : شہزاد بشیر
★  جس دن کتاب ہاتھ میں آئی تو اس کے ابتدائی چند صفحات پر نظر ڈالی مصنفہ کا تعارف اور کتاب پر ادبی شخصیات کی رائے پڑھی۔ پھر جونہین ابواب کی فہرست پر نظر پڑی تو کتاب کو دوبارہ چیک کیا کیونکہ فہرست سے لگا کہ شاید یہ کوئی ناول نہیں بلکہ مطالعہ پاکستان یا تاریخ کی کوئی کتاب ہے۔
آکسفورڈ ، امرتسر، دہلی، لاہور 2010، 1940، 2007، وغیرہ۔ مطلب پہلی نظر میں تو واقعی مطالعہ پاکستان کی کوئی کتاب ہی لگی اور یہ مضمون ویسے کافی خشک سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ بات کنفرم تھی کہ ہے یہ ناول ہی۔ تو سوچا کہ چلو پہلے باب پر نظر ڈالتا ہوں۔۔۔ اور ڈالی تو بس۔۔۔
★ شروعات ہی میں چونکنا پڑا۔ یہ چونکنا عام قاری کے چونکنے سے دگنا سمجھ لیجئے کیونکہ جاسوسی ناول نگار ہوں تو ظاہر ہے ہلکی چیز پہ تو چونکنا بنتا نہیں ہے۔ پہلے ہی صفحے میں مصنفہ نے سسپنس سنسنی اورMay be an image of 3 people and text تجسس کا سحر پھونک ڈالا۔ مگر میں اپنے ناولوں کی اشاعت میں اتنا مصروف تھا کہ اس کتاب کو کئی بار ہاتھ میں لینے کے بعد بھی پڑھ نہیں پایا مگر یہ اپنے لیپ ٹاپ کے قریب ضرور رکھ لی کہ جیسے ہی موقع ملے گا اسے پڑھوں گا۔ اور پھر آج موقع مل گیا۔ اور پورا ناول ایک نشست میں پڑھ ڈالا۔۔۔۔ کیا پڑھا؟ چلئے بتاتا ہوں۔
★ اب اس کے چیپٹرز پڑھے تو بات سمجھ میں آئی کہ یہ اب تک کے پڑھے جانے والے تمام ناولوں سے یکسر مختلف انداز کا ناول ہے جس میں بیک وقت ماضی اور حال کو ایسے لکھا گیا ہے کہ ایک کڑی کی طرح آپس میں جڑ گئے ہیں۔ اگر آپ نے ڈرافٹ کا گیم کھیلا ہوتو اس میں ایک خانہ سفید اور دوسرا سیاہ ہوتا ہے۔ بلکل اسی طرح کا یہ ناول ہے۔ یعنی ماضی کے بعد حال اور پھر ماضی اور پھر حال۔
کہانی آج کے دور کے ایک مایوس نوجوان اور ایک پرعزم لڑکی کے گرد گھومتی ہے مرکزی خیال ہے پہچان۔ جی ہاں۔ پہچان مگر کس کی؟ اور کیسی؟ یہ ناول پڑھ کر پتہ چلے گا۔
★ ایک بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ بھلے ہی ہم نے اپنے اسکول کالج کے دور میں مطالعہ پاکستان پڑھا ہے یا شاید رٹا مار کر یاد کر لیا، مسلم لیگ، کانگریس، جناح صاحب، گاندھی نہرو، ہندو مسلم فسادات، تاج برطانیہ، کرپس مشن، لارڈ ماؤنٹ بیٹن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ بھی کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان مین مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں کی جاتی تھیں۔، اغوا، عصمت دری، قتل، بلوے اور نہ جانے کیا درندگی۔ ۔۔۔ اور یہ بھی کہ کس طرح مسلمانوں کے ایک حلقے کی یہ سوچ تھی کہ جناح ہندوستان کو توڑ کر سازش کر رہا ہے جب کہ جناح کا کہنا تھا کہ تم لوگ ساری زندگی اپنی ہندستان دوستی کا ثبوت دینے میں گزار دوگے۔
★ اب سنئے۔ بے شک یہ ایک ایسا منفرد ناول ہے اور کہانی اتنی پرتجسس اور دلچسپ ہے کہ درمیان میں چھوڑنا بہت مشکل ہوگا۔ ہندوستان پاکستان اور آکسفورڈ کا یہ ٹرائیکا جس میں ایک پرعزم لڑکی کے سوا زیادہ تر کردار منفی رحجانات لئے نظر آتے ہیں۔ ایک اور نوجوان جسے اس لڑکی کی طرح پہچان کا مسئلہ درپیش تھا۔ ناول میں شروع سے آخر تک سسپنس قائم رہتا ہے۔ اور پھر اختتامی صفحات میں ایک باب آتا ہے جس میں “پاکستان کی تخلیق انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی” کے موضوع پر مقابلہ ہوتا ہے اور یہ اس ناول کا سب سے بیسٹ چیپٹر ہے۔
★ آج کی نوجوان نسل ہو یا ہمارے بزرگ یا پھر مایوس نوجوان اور وہ لوگ جو موجودہ دور میں کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان سے بہتر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ناول پڑھ کر کئی امید کے بجھتے چراغ پھر سے جل اٹھیں گے۔ یہ یوں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ بات ہے ہی ایسی۔ جاندار مکالمے، منفرد انداز کے مناظر، خطرناک سچوئیشنز، دھونس دھمکی، پیار ہمدردی، سچ پر کھڑے رہنا اور جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر چھپنا، تاریخ اور حال کا تال میل ایسا زبردست کہ روانی میں ذرا فرق نہ آیا۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ یہ ناول کوئی جاسوسی ناول نہیں، مگر جو سرپرائز مصنفہ نے آخر میں اس تقریری مقابلے میں دیا وہ قاری کو اچھل پڑنے پر مجبور ضرور کردیتا ہے۔ بے اختیار منہ سے واہ،۔۔ نکلا۔
★ کچھ کتابیں آپ کے مطالعے کے آتی ہیں اور بہت کچھ سکھا جاتی ہیں۔ کبھی عدم تعارف کی بنا پر مصنف کا وہ خاکہ ذہن میں نہیں ہوتا جو تحریر پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ پہچان واقعی ایک ایسا زبردست ناول ہے جس سے نہ جانے کتنے لوگوں کو خود کو پچاننے کا موقع ملے گا۔ آپ چاہے ملک میں ہو یا بیرون ملک۔۔۔ حقیقی پہچان ضروری ہے۔
★ محترمہ نے واقعی پاکستان کی تاریخ کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ بنا بور کئے بڑے ہی شوق سے ہر قاری کے ذہن میں بیٹھ جانے والا ہے۔ نصآب کی کتاب سے پڑھنا اور کہانی کی شکل میں پڑھنا دونوں الگ نتائج دیتے ہیں۔
محترمہ چونکہ خود ایک اعلی تعلیم یافتہ شخصیت ہیں تو اس کا کھلا اظہار ان کی تحریر میں، تحقیق میں، کہانی کے پلاٹ میں، ابتدائیے اور اختتامیے میں، مکالموں میں اور جذباتی سچوئیشنز میں صاف نظر آتا ہے۔ ہر سطر اور مکالمہ میچور اور پڑھا لکھا تاثر پیش کرتا ہے۔ صرف سنجیدگی اور تاریخی معاملات ہی نہیں بلکہ اس میں طنزومزاح بھی حسب ضرورت بہت بہترین پیش کیا گیا ہے۔ دوستوں کے مابیں ہونے والی گفتگو کا فطری انداز جس میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی گئی۔
★ لب لباب یہ کہ سو فیصد دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ ناول منگوا کر آپ کو لگے گا کہ واقعی کچھ پڑھا ہے پیسے اور وقت ضائع نہیں ہوا۔ گھر کی لائبریری کے لئے ایک قیمتی اضافہ کہئے اور دوستوں کو گفٹ کرنے کے لئے بہترین ناول
مصفنہ محترمہ ثناور اقبال صاحبہ کو ایسا بہترین ناول لکھنے پر دل سے مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ کرے ان کا قلم چلتا رہے اور مزید شاہکار تخلیق ہوتے رہیں۔ آمین۔