تبصرہ : بہاول پور میں اجنبی

 بہاول پور میں اجنبی

مصنف: مظہر اقبال مظہر
(زیر اہتمام: پریس فار پیس فاؤنڈیشن ۔ U.K)
تبصرہ نگار : شہزاد بشیر 

  سب سے پہلے تو میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں “محترمہ تسنیم جعفری” صاحبہ کا کہ انہوں نے ریفر کیا “پروفیسر ظفر اقبال” صاحب کو جو روح رواں ہیں “پریس فار پیس فاؤنڈیشن ۔ U.K”کے۔

پروفیسر صاحب نے بہت محبت سے رابطہ کیا اور کافی دیر کتابوں ادیبوں اور پبلشنگ کے معاملات پر سیر حاصل بحث فرمائی۔ اگلی چند آن لائن چیٹنگ کے دوران پروفیسر صاحب نے ایک جناب مظہر اقبال مظہر کی کتاب ارسال فرمائی جس کا نام ہے “بہاول پور میں اجنبی” جسے ان کے ادارے نے شائع کیا ہے۔ اور بہت خوب شائع کیا ہے مطلب بطور پبلشر کہہ رہا ہوں کہ کتاب ہاتھ میں لیتے ہی ایک خوشگوار احساس ہوا۔ ہارڈ کور، بائنڈنگ، ٹائٹل پیج اور اندرونی کاغذ بہت خوشنما اور دیدہ زیب ہے جس سے ان کے ذوق اشاعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ
 اب اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کراچی کے ایک اردو بولنے والے بندے کو بہاول پور میں اجنبی میں لکھنے کیلئے کیا ملے گا یا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے،تو آپ کی سوچ کو سلام ہے۔۔۔ مگر رکئے سلام کا جواب بھی  تو ہے۔

آپ کو نہیں پتہ تو بتا دیتا ہوں کہ بہاول پور کے کئی بہترین دوست میرے حلقہ احباب میں ہیں اور بہت پیارے اور مخلص قارئین بھی بہاولپور سے ہیں۔ لیکن ساتھ یہ بھی بتادوں کہ میرا بچپن ہر قومیت کے لوگوں کے درمیان گزرا ہے اور صرف گزرا نہیں بلکہ ان کا اچھا تجربہ بھی ہے۔ سرائیکی بولنے والے کئی دوست بھی رہے اور کئی میرے زیر نگرانی کام بھی کرتے رہے ہیں۔ آج بھی کئی سرائیکی بولنے والے بھائی دوست میرے ارد گرد ہیں تو اس لحاط سے اس کتاب میں دلچسپی ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور لکھنے پہ آیا ہوں تو آپ کو مایوس نہین کروں گا (یوں بھی کہہ لیں کہ لگ پتہ جائیگا 🙂 )۔
  کتاب بادی النظر میں ایک سفرنامہ لگتی ہے اور اس حساب سے یہ سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ایک خشک بے مزہ سفرنامہ ہوگا مگر ۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کے اندازے ریت کی دیوار ثابت ہونگے، پانی کے بلبلے ثابت ہونگے اور صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جائینگے۔ اب بیٹھ جائیں تو ٹھیک ہے کیونکہ کھڑے کھڑے تھک بھی تو جاتی ہیں نا چیزیں۔ ( یہ اضافی مصالحۃ ان قارئین کیلئے ہے جو فرمائش کر کے تبصروں میں ڈلواتے ہیں۔ لیجئے اپ کا حکم سر آنکھوں پر۔۔۔ ہاں ! 🙂 )
  اچھا۔۔۔ یار۔۔بات یہ ہے کہ یہ تھری اِن ون کتاب ہے۔ مطلب ایک ٹکٹ میں تین مزے۔ کیونکہ اس کتاب میں صرف بہاول پور کا ایک دلچسپ سفر نامہ (یا میرے خیال سے سرگزشت کہیں تو زیادہ بہتر ہے) کے علاوہ دو خوبصورت افسانے “دل مندر” اور “ایک بوند پانی” بھی پڑھنے کو ملیں گے۔ دونوں بہت اچھے اور قابل تعریف افسانے ہیں۔
  اچھا اس کتاب کو جب شروع کیا تو ارادہ پڑھنے کا نہیں تھا۔۔۔! اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ پڑھنے کا نہیں تھا تو کیا لکھنے کا تھا۔ اصل میں صرف ایک نظر ڈالنے کیلئے کتاب اٹھائی تھی کہ اس سے پہلے کچھ کتابوں پر تبصرہ کرنا تھا اور اس کتاب کا نمبر بعد میں آنا تھا۔ مگر بھئی اب یہ کتاب شروع سے ہی اتنی دلچسپ لگی کہ “بس ایک صفحہ پڑھ کے رکھتاہوں” کہتے کہتے کئی صفحے پڑھ ڈالے،۔ اب یہ تو مصنف کی شرارت کہین یا کمالِ تحریر کے مجھے جسکا لگ گیا اور پڑھتا ہی چلا گیا۔ اس ضمن میں باقی احباب سے معذرت جن کی کتابیں ابھی تبصرے کیلئے باقی ہیں۔ امید ہے معاف فرمائیں گے۔ تو جناب اس میں قصور سراسر مظہر اقبال مظہر صاحب کا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایک خوبصورت انداز تحریر اپنایا جس میں اردو میں کہیں کہیں سرائیکی بھی فٹ کی مگر جہاں فٹ کی وہاں تاج میں نگینے کی طرح فٹ ہوئی۔ اور اس پیرا گراف کا اور تحریر کا مزہ ہی دوبالا ہوگیا۔
  پہلے بہاول پور کا نام سنا تھا اب دل چاہ رہا ہے کہ جا کے دیکھا بھی جائے۔ “فرید گیٹ” کے اطراف کا جو نقشہ کھینچا ہے اور “شاہی بازار” اور ہوٹل و یونیورسٹی کے واقعات جس مزے دار انداز میں شامل کئے ہیں وہ بہت زبرست لگے اور بے اختیار مصنف کو داد دیتا رہا۔
  بھیا۔۔۔ یہ صرف ایک سفر نامہ نہیں مزے دار کتھا سمجھ لیجئے۔ اب بھلا سفر نامے میں بھی کہیں ہنسی آتی ہے ۔۔۔ اچھا بھئی آپ کو آتی ہوگی اور اب مجھے بھی آئی جب بہاول پور میں اجنبی مصنف نے تانگے کے سفر کی روداد لکھی اور دیگر اور کھٹے میٹھے مشاہدات شیئر کئے ہیں وہ ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یقنی نہیں آیا تو دیکھ لیجئے میں نے کچھ تراشے اس پوسٹ میں شیئر کیئے ہیں۔ پڑھ کر آپ کو بھی مزہ آئے گا۔
  چلئے اب میں زیادہ اور لکھوں گا تو پھر آپ کو کتاب پڑھنے کا مزہ نہیں آئے گا اور ویسے بھی اپ نے اتنا مزہ تو اس تبصرے سے لے ہی لیا ہوگا کہ مزید کیلئے کتاب منگوا لیں گے۔ مزہ نہ آئے تو ۔۔۔ دو روٹی زیادہ کھائیے گا۔ 🙂
کتاب آپ کو پریس فار پیس سے ہی منگوانی ہوگی ! صاف بات ہے !
 

تبصرہ : شہزاد بشیر
مصنف/پبلشر (کتاب دوست گروپ)